۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
اربعین

حوزہ/ درحقیقت ہدف کربلاکے محقق ہونے کا بین ثبوت ہے جو امام حسینؑ اور ان کے اصحاب واہل بیتؑ کی شہادتوں کی وجہ سے وجود میں آئی تھی یعنی کربلا کے عالمی اور انقلابی افکار کو لوگوں تک پہنچانا اور انہیں یہ طاقت و جرأت دینا کہ وہ ظلم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں ۔ 

تحریر: مولانا محمد رضا ایلیاؔ پورہ رانی، مبارکپور، اعظم گڑھ

حوزہ نیوز ایجنسی | اربعین حسینی واقعہ کربلا میں ایک نئی انقلابی تحریک کا آغاز ہے ۔محاربہ عظیم کے بعد کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں حضرت امام حسینؑ اور ان کے اہل بیتؑنیز با وفا ساتھیوں کی لازوال قربانیاں آسمان حقانیت پر مثل بدر منیرروشن ہے۔اہل بیتؑ کی خواتین اور بچوں کی اسیری نے کربلائی پیغام کی نشر و اشاعت میں انقلابی تحریکیںدنیا کے کونے کونے تک عام کیا ۔پیغام کربلا کی نشریات میں جو انتھک کوشش کیں وہ آج کے دور میں اور زیا دہ بہ معنی اور جگ ظاہر ہے ۔
امام حسین ؑ نے اپنے سفر کے درمیان مختلف مقاما ت پر خطبوں اور مخالفین کے سامنے احتجاج کرکے کربلائی تحریک کے واضح ترین اقدامات کیے ۔انہوں نے پورے قیام کے دوران 7خطبات،8احتجاج قائم کیے ہیں ،اسی طرح امام زین العابدینؑ کے 3خطبات ،3 احتجاج ،حضرت زینبؑ کے2 خطبات ،1احتجاج اور حضرت فاطمہ صغریٰ اورحضرت ام کلثوم کے 3خطبات کربلائی تحریک میں شامل ہیں۔امام حسینؑ اور دیگر معزز شخصیات نے جوعمو می خطبے دیئے ہیں ان کامقصد لوگوں میں اہل بیتؑ کے مقام منزل کو واضح کرنا اور بنی امیہ کے ظلم و ستم کو اجا گر کرنا تھا ۔بعد کربلا جتنے بھی خطبے دیئے گئے ان سب کے مطالعہ سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ ان خطبات اور احتجاجی حقائق کے بیان میں پیغام حسینی کی نشر و اشاعت در اصل ایک مضبوط و مستحکم میڈیا کی مانندثابت ہوا جس نے واقعہ کربلا کے مقاصدکو مختلف زاویہ نگاہ سے جہاں جہاں بھی موقع ملا پھیلا دیا۔ان انقلابی مشن نے انسانوں کےضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ فلسفہ اربعین حسینی کی خصوصیت خاصہ یہ ہے کہ اس مشن میں حقائق کو بیان کرنے کا حوصلہ اور شہادتوں کے مقاصد و اہداف کو عملی شکل دینے کی قدرت اور طاقت موجود ہے۔
کوفہ اور شام جیسے شہروں میں جہاں ظالم حکمتوں اور شر پسند عناصر کے دباؤ اور گھٹن کا ماحول تھا اور کربلا سے ان شہروں کے درمیانی راستے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد حضرت زینب ؑ و ام کلثوم ؑو دیگر کربلائی خواتین کے خطبے یا امام سجادؑ کے خطبات یا ان اسیروں کی حالت زار دیکھ کر بہت کچھ سمجھ گئے تھے لیکن کسی میں یہ طاقت و جرأت نہیں تھی کہ وہ ظلم و ستم کے اس شر پسند حکومتی سسٹم کے خلاف اپنی آواز اٹھائیں یا دوسرے ناواقف لو گوں کو کربلائی حقانیت سے واقف کرائیں یہ تمام حقائق ایک پھندے کی صورت میں لوگوں کے حلق میں پھنسے ہوئے تھے ۔ لیکن اس احساس اور پھندے نے روز اربعین حسینی اپنا حصار توڑ دیا اور چشمہ بن کر کربلا میں پھوٹا ۔بعد کربلا امام زین العابدین ؑ اور کربلائی شہزادیوں نےاما م حسین ؑکے مشن کی نشرو اشاعت اورامت نبی کی فلاح و بہبود کے لیےزبان و بیان ، کر دار عمل ، صبر و استقامت کی جو جولازوال اوربے مثال کردار پیش کیا درحقیقت ہدف کربلاکے محقق ہونے کا بین ثبوت ہے جو امام حسینؑ اور ان کے اصحاب واہل بیتؑ کی شہادتوں کی وجہ سے وجود میں آئی تھی یعنی کربلا کے عالمی اور انقلابی افکار کو لوگوں تک پہنچانا اور انہیں یہ طاقت و جرأت دینا کہ وہ ظلم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .